• Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Monday, November 10, 2025
Jammu Kashmir News Service | JKNS
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World
No Result
View All Result
Jammu Kashmir News Service | JKNS
No Result
View All Result
Home اردو خبریں

ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی کا عہد

Arshid Rasool by Arshid Rasool
October 10, 2025
in اردو خبریں
A A
DECIPHERING THE IMPACT OF SOCIAL MEDIA ON YOUTH RADICALIZATION A COMPREHENSIVE PERSPECTIVE
FacebookTwitterWhatsapp

قارئین دنیا ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں انسانی ترقی کی رفتار ٹیکنالوجی کے دھڑکتے نبض پر چل رہی ہے۔ وہ زمانہ بیت چکا جب فاصلے رکاوٹ بنتے تھے یا معلومات چند طبقوں کی میراث تھیں۔ آج ایک انگلی کی جنبش پر دنیا آپ کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اس انقلاب کی بنیاد تین قوتوں پر رکھی گئی ہے ۔ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی۔ تینوں مل کر ایک ایسا دائرہ بناتے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر گوشے میں اپنی موجودگی درج کراتا ہے۔قارئین ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی نے انسانی زندگی کے خدوخال بدل کر رکھ دیے ہیں۔ یہ تینوں عناصر بظاہر الگ نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں ، ترقی، ربط اور آگہی کی زنجیر۔ ٹیکنالوجی نے دنیا کو قریب لانے کی بنیاد فراہم کی، سوشل میڈیا نے آوازوں کو پہچان دی، اور ڈیجیٹل خواندگی نے اس سارے نظام کو ذمہ داری اور شعور کے ساتھ سمجھنے کا ہنر عطا کیا۔ٹیکنالوجی نے وہ کر دکھایا ہے جو کبھی خواب سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم، صحت، کاروبار، حکومت ، سبھی میدانوں میں اس نے انقلاب برپا کیا ہے۔ اسکولوں کے اسمارٹ بورڈ ہوں یا اسپتالوں کے روبوٹک آلات، ہر جگہ انسانی ذہانت مشین کی رفتار سے جڑ چکی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا شخص اب دوسرے سرے پر موجود فرد سے پلک جھپکتے رابطہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ سہولت جہاں حیرت انگیز ہے، وہیں ایک سوال بھی چھوڑ جاتی ہے ۔ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے تقریباً ہر گوشے کو چھو لیا ہے ۔تعلیم سے لے کر صحت، کاروبار سے لے کر طرزِ حکمرانی تک۔ چند دہائیاں پہلے جو فاصلہ میلوں کا تھا، اب ایک ویڈیو کال کی مسافت بن چکا ہے۔ علم و معلومات تک فوری رسائی نے جدت اور تحقیق کے نئے در وا کیے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور خودکار نظاموں نے معیشت کو نئی رفتار دی ہے۔ ماحولیات، توانائی اور وسائل کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بھی ڈیجیٹل حل سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن اس ترقی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔روزگار کے مواقع میں تبدیلی، مشینوں پر ضرورت سے زیادہ انحصار، اور ان طبقات کے درمیان فاصلہ جنہیں ڈیجیٹل سہولت میسر ہے اور جنہیں نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کو محض سہولت نہیں، ایک ذمہ داری سمجھ کر اپنایا جائے ۔ ایسی ذمہ داری جو سب کو شامل کرے اور پائیدار ترقی کی راہ دکھائے۔کیا سب کو یہ مواقع یکساں دستیاب ہیں؟ کیا ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا؟ یہی وہ نکتہ ہے جو اس انقلاب کو انسانی رخ دیتا ہے۔ ترقی کا مطلب صرف رفتار نہیں، شمولیت بھی ہے۔سوشل میڈیا نے ٹیکنالوجی کو ایک نیا چہرہ دیا آواز کا چہرہ اس نے بولنے، سننے اور پہچانے جانے کے معانی بدل دیے۔ اب ایک عام شہری بھی اپنی بات عالمی سطح پر پہنچا سکتا ہے۔ کسی مظلوم کی فریاد ہو یا کسی مہم کی حمایت، سوشل میڈیا نے اظہار کے دروازے کھول دیے ہیں۔ کاروباری دنیا میں یہ تشہیر کا سب سے مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور تعلیمی میدان میں معلومات کا خزانہ۔ مگر جہاں یہ طاقتور ذریعہ مثبت تبدیلی لا سکتا ہے، وہیں اس کے سائے میں خطرات بھی چھپے ہیں ، غلط معلومات کی یلغار، نفرت انگیزی، نجی زندگی کی پامالی اور ذہنی دباؤ کے نئے مسائل۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اسے ذمہ داری کے شعور کے ساتھ برتیں، ورنہ یہی رابطہ بگاڑ میں بدل سکتا ہے۔سوشل میڈیا اس عہد کی سب سے طاقتور آواز بن چکا ہے۔ اس نے جغرافیائی حدود، زبانوں اور ثقافتوں کی دیواریں توڑ کر لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ اب ایک عام فرد بھی اپنی بات عالمی سطح پر پہنچا سکتا ہے۔ انسانی حقوق، تعلیم، ماحولیاتی بیداری یا سماجی انصاف ، ہر میدان میں سوشل میڈیا نے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں خاموش آوازیں بھی سنی جاتی ہیں۔ کاروباری اداروں سے لے کر تعلیمی اداروں تک، سب نے اس سے مواقع پیدا کیے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں غلط معلومات، نفرت انگیزی، نجی زندگی کی خلاف ورزیاں اور نفسیاتی انحصار جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے زیادہ ضرورت ہے شعور، ضبط اور ذمہ داری کی۔ اگر اسے مثبت سمت میں برتا جائے تو یہی ذریعہ علم، روابط اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔اسی تناظر میں ڈیجیٹل خواندگی کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ آج کے زمانے میں صرف کمپیوٹر چلانا کافی نہیں؛ اصل مہارت یہ ہے کہ ہم معلومات کو پرکھنے کا ہنر جانیں۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں۔ آن لائن دنیا میں اپنی شناخت اور رازداری محفوظ رکھ سکیں۔ یہی شعور ڈیجیٹل خواندگی ہے — ایک ایسی صلاحیت جو نہ صرف روزگار کے نئے در کھولتی ہے بلکہ سماجی مساوات کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔ جب ہر شخص ڈیجیٹل علم سے آراستہ ہوگا تو ترقی چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہے گی بلکہ اجتماعی بنے گی۔یہ تین ستون ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی دراصل ایک ہی عمارت کے مختلف حصے ہیں: **ڈیجیٹل دور کی عمارت ٹیکنالوجی اس کا ڈھانچہ ہے، سوشل میڈیا اس کی آواز، اور ڈیجیٹل خواندگی اس کی بصیرت۔ ان کے امتزاج نے تعلیم، صحت، طرزِ حکمرانی اور معاشرتی روابط کی تعریف بدل دی ہے۔ تاہم، خطرات اب بھی منڈلا رہے ہیں ڈیجیٹل تفریق، غلط بیانی، اور آن لائن غیر محفوظ رویے۔ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو یہ ترقی کے پاؤں میں زنجیر بن سکتے ہیں۔آگے کا راستہ واضح ہے ٹیکنالوجی کو انسانیت کے تابع کرنا، نہ کہ انسان کو مشین کا غلام بننے دینا۔ ڈیجیٹل خواندگی کو عام کرنا، تاکہ ہر فرد باخبر اور محفوظ ہو۔ سوشل میڈیا کو مثبت مکالمے کا پلیٹ فارم بنانا، تاکہ ربط محض لفظوں کا نہیں بلکہ سمجھ اور احساس کا بھی ہو۔ یہی وہ توازن ہے جس سے ہم ایک ایسا مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں جو ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ منصفانہ بھی ہو۔آخرکار، اصل امتحان ٹیکنالوجی کی رفتار کا نہیں، بلکہ انسانی شعور کی گہرائی کا ہے۔ اگر ہم نے یہ سمجھ لیا تو ڈیجیٹل دور محض مشینوں کا نہیں بلکہ انسانوں کا زمانہ بن جائے گا۔ترقی کا راستہ تبھی پائیدار ہوگا جب ہم ٹیکنالوجی کو محض جدت کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی فلاح کا وسیلہ سمجھیں۔ اگر ہم ڈیجیٹل خواندگی کو عام کریں، ہر فرد کو معلومات اور وسائل تک مساوی رسائی دیں، اور سوشل میڈیا کو مثبت مکالمے کا پلیٹ فارم بنائیں — تو یہ تینوں قوتیں مل کر ایک ایسا مستقبل تشکیل دے سکتی ہیں جو باخبر، بااختیار اور منصفانہ ہو۔ یہی اس نئے دور کی اصل کامیابی ہوگی۔

قارئین دنیا ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں انسانی ترقی کی رفتار ٹیکنالوجی کے دھڑکتے نبض پر چل رہی ہے۔ وہ زمانہ بیت چکا جب فاصلے رکاوٹ بنتے تھے یا معلومات چند طبقوں کی میراث تھیں۔ آج ایک انگلی کی جنبش پر دنیا آپ کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اس انقلاب کی بنیاد تین قوتوں پر رکھی گئی ہے ۔ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی۔ تینوں مل کر ایک ایسا دائرہ بناتے ہیں جو انسانی زندگی کے ہر گوشے میں اپنی موجودگی درج کراتا ہے۔قارئین ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی نے انسانی زندگی کے خدوخال بدل کر رکھ دیے ہیں۔ یہ تینوں عناصر بظاہر الگ نظر آتے ہیں، مگر حقیقت میں ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں ، ترقی، ربط اور آگہی کی زنجیر۔ ٹیکنالوجی نے دنیا کو قریب لانے کی بنیاد فراہم کی، سوشل میڈیا نے آوازوں کو پہچان دی، اور ڈیجیٹل خواندگی نے اس سارے نظام کو ذمہ داری اور شعور کے ساتھ سمجھنے کا ہنر عطا کیا۔ٹیکنالوجی نے وہ کر دکھایا ہے جو کبھی خواب سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم، صحت، کاروبار، حکومت ، سبھی میدانوں میں اس نے انقلاب برپا کیا ہے۔ اسکولوں کے اسمارٹ بورڈ ہوں یا اسپتالوں کے روبوٹک آلات، ہر جگہ انسانی ذہانت مشین کی رفتار سے جڑ چکی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا شخص اب دوسرے سرے پر موجود فرد سے پلک جھپکتے رابطہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ سہولت جہاں حیرت انگیز ہے، وہیں ایک سوال بھی چھوڑ جاتی ہے ۔ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے تقریباً ہر گوشے کو چھو لیا ہے ۔تعلیم سے لے کر صحت، کاروبار سے لے کر طرزِ حکمرانی تک۔ چند دہائیاں پہلے جو فاصلہ میلوں کا تھا، اب ایک ویڈیو کال کی مسافت بن چکا ہے۔ علم و معلومات تک فوری رسائی نے جدت اور تحقیق کے نئے در وا کیے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور خودکار نظاموں نے معیشت کو نئی رفتار دی ہے۔ ماحولیات، توانائی اور وسائل کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بھی ڈیجیٹل حل سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن اس ترقی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔روزگار کے مواقع میں تبدیلی، مشینوں پر ضرورت سے زیادہ انحصار، اور ان طبقات کے درمیان فاصلہ جنہیں ڈیجیٹل سہولت میسر ہے اور جنہیں نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کو محض سہولت نہیں، ایک ذمہ داری سمجھ کر اپنایا جائے ۔ ایسی ذمہ داری جو سب کو شامل کرے اور پائیدار ترقی کی راہ دکھائے۔کیا سب کو یہ مواقع یکساں دستیاب ہیں؟ کیا ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا؟ یہی وہ نکتہ ہے جو اس انقلاب کو انسانی رخ دیتا ہے۔ ترقی کا مطلب صرف رفتار نہیں، شمولیت بھی ہے۔سوشل میڈیا نے ٹیکنالوجی کو ایک نیا چہرہ دیا آواز کا چہرہ اس نے بولنے، سننے اور پہچانے جانے کے معانی بدل دیے۔ اب ایک عام شہری بھی اپنی بات عالمی سطح پر پہنچا سکتا ہے۔ کسی مظلوم کی فریاد ہو یا کسی مہم کی حمایت، سوشل میڈیا نے اظہار کے دروازے کھول دیے ہیں۔ کاروباری دنیا میں یہ تشہیر کا سب سے مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور تعلیمی میدان میں معلومات کا خزانہ۔ مگر جہاں یہ طاقتور ذریعہ مثبت تبدیلی لا سکتا ہے، وہیں اس کے سائے میں خطرات بھی چھپے ہیں ، غلط معلومات کی یلغار، نفرت انگیزی، نجی زندگی کی پامالی اور ذہنی دباؤ کے نئے مسائل۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اسے ذمہ داری کے شعور کے ساتھ برتیں، ورنہ یہی رابطہ بگاڑ میں بدل سکتا ہے۔سوشل میڈیا اس عہد کی سب سے طاقتور آواز بن چکا ہے۔ اس نے جغرافیائی حدود، زبانوں اور ثقافتوں کی دیواریں توڑ کر لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ اب ایک عام فرد بھی اپنی بات عالمی سطح پر پہنچا سکتا ہے۔ انسانی حقوق، تعلیم، ماحولیاتی بیداری یا سماجی انصاف ، ہر میدان میں سوشل میڈیا نے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں خاموش آوازیں بھی سنی جاتی ہیں۔ کاروباری اداروں سے لے کر تعلیمی اداروں تک، سب نے اس سے مواقع پیدا کیے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ وہ جگہ بھی ہے جہاں غلط معلومات، نفرت انگیزی، نجی زندگی کی خلاف ورزیاں اور نفسیاتی انحصار جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا کے استعمال میں سب سے زیادہ ضرورت ہے شعور، ضبط اور ذمہ داری کی۔ اگر اسے مثبت سمت میں برتا جائے تو یہی ذریعہ علم، روابط اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔اسی تناظر میں ڈیجیٹل خواندگی کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ آج کے زمانے میں صرف کمپیوٹر چلانا کافی نہیں؛ اصل مہارت یہ ہے کہ ہم معلومات کو پرکھنے کا ہنر جانیں۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکیں۔ آن لائن دنیا میں اپنی شناخت اور رازداری محفوظ رکھ سکیں۔ یہی شعور ڈیجیٹل خواندگی ہے — ایک ایسی صلاحیت جو نہ صرف روزگار کے نئے در کھولتی ہے بلکہ سماجی مساوات کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔ جب ہر شخص ڈیجیٹل علم سے آراستہ ہوگا تو ترقی چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہے گی بلکہ اجتماعی بنے گی۔یہ تین ستون ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خواندگی دراصل ایک ہی عمارت کے مختلف حصے ہیں: **ڈیجیٹل دور کی عمارت ٹیکنالوجی اس کا ڈھانچہ ہے، سوشل میڈیا اس کی آواز، اور ڈیجیٹل خواندگی اس کی بصیرت۔ ان کے امتزاج نے تعلیم، صحت، طرزِ حکمرانی اور معاشرتی روابط کی تعریف بدل دی ہے۔ تاہم، خطرات اب بھی منڈلا رہے ہیں ڈیجیٹل تفریق، غلط بیانی، اور آن لائن غیر محفوظ رویے۔ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو یہ ترقی کے پاؤں میں زنجیر بن سکتے ہیں۔آگے کا راستہ واضح ہے ٹیکنالوجی کو انسانیت کے تابع کرنا، نہ کہ انسان کو مشین کا غلام بننے دینا۔ ڈیجیٹل خواندگی کو عام کرنا، تاکہ ہر فرد باخبر اور محفوظ ہو۔ سوشل میڈیا کو مثبت مکالمے کا پلیٹ فارم بنانا، تاکہ ربط محض لفظوں کا نہیں بلکہ سمجھ اور احساس کا بھی ہو۔ یہی وہ توازن ہے جس سے ہم ایک ایسا مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں جو ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ منصفانہ بھی ہو۔آخرکار، اصل امتحان ٹیکنالوجی کی رفتار کا نہیں، بلکہ انسانی شعور کی گہرائی کا ہے۔ اگر ہم نے یہ سمجھ لیا تو ڈیجیٹل دور محض مشینوں کا نہیں بلکہ انسانوں کا زمانہ بن جائے گا۔ترقی کا راستہ تبھی پائیدار ہوگا جب ہم ٹیکنالوجی کو محض جدت کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی فلاح کا وسیلہ سمجھیں۔ اگر ہم ڈیجیٹل خواندگی کو عام کریں، ہر فرد کو معلومات اور وسائل تک مساوی رسائی دیں، اور سوشل میڈیا کو مثبت مکالمے کا پلیٹ فارم بنائیں — تو یہ تینوں قوتیں مل کر ایک ایسا مستقبل تشکیل دے سکتی ہیں جو باخبر، بااختیار اور منصفانہ ہو۔ یہی اس نئے دور کی اصل کامیابی ہوگی۔

Previous Post

Peace in J&K Paving Way for Growth and Prosperity: LG Manoj Sinha

Next Post

وادی کشمیر صرف ایک سٹریٹجک کے لحاظ سے خطہ نہیں بلکہ یہ منفرد ثقافت اور آب و ہوا کا امتزاج کا سنگ میل بھی ہے

Arshid Rasool

Arshid Rasool

Next Post
وادی کشمیر کی قدیم تاریخ اور روایات لوک کہانیوں سے جڑی  ہوئی

وادی کشمیر صرف ایک سٹریٹجک کے لحاظ سے خطہ نہیں بلکہ یہ منفرد ثقافت اور آب و ہوا کا امتزاج کا سنگ میل بھی ہے

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Home
  • Our Team
  • About Us
  • Contact Us
Dalgate, Near C.D hospital Srinagar Jammu and Kashmir. Pincode: 190001.
Email us: editorjkns@gmail.com

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Top Stories
  • Kashmir
  • Jammu
  • National
  • Business
  • Sports
  • Oped
  • World

© JKNS - Designed and Developed by GITS.

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.